رات شاید راگ کے لئے ہی بنی تھی
By Sadi
رات شاید راگ کے لئے ہی بنی تھی۔ اگر پوری رات اسے سنو گی تو بھیگ جاؤ گی۔ بھیگ کر اٹھو گی ۔۔۔ دربار سے جب نکلو گی تو ٹپک رہی ہوگی۔ دربار چھوڑ کر کراچی بھی آ لوٹو گی۔ اس راگ کی آواز وہاں تک تمھارے اندر گونج رہی ہوگی ۔۔۔۔
ایک فقیر دوست نے اپنی امی سے ملوایا۔ انہوں نے پوچھا، راگ کیوں سنتی ہو؟
پتہ نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ سندھی میں ہے کچھ سمجھ تو آتا نہیں۔
انہوں نے کہا پریشان مت ہو۔ سمجھ آجائے گا۔ راگ دریا ہے۔ ختم تھوڑی ہوگا۔ کیا دریا کو کتاب میں قید کیا جا سکتا ہے؟
صوفی کہتا ہے کہ دل آئینہ ہے۔ پھر راگ وہ صدا ہے جو دل کے آئینے کو صاف کرتا ہے۔ دکھاتا ہے کہ تم کس خدا اور کس خودی کے سامنے کھڑی ہو۔ سارا کچرا تمہاری آنکھوں کے سامنے لا رکھ دیتا ہے۔ فقیر صدا دیتے ہیں اور رات کو چیر دیتے ہیں اور اس چیرنے میں تم بھی بکھر کے کھل جاتی ہو۔
بکھرے بغیر کھلنا ناممکن ہے۔ یہ مجھے راگ نے سکھایا ہے۔
اتنا کچھ کھویا ہے کہ جب کچھ ملتا ہے تو چونک جاتی ہوں۔ بھٹ شاہ کے فقیر میرے خالی ہاتھوں کو چونکا تے رہتے ہیں۔ چائے اور تبرک بھیجتے رہتے ہیں۔ میں ہاتھ فورن نہیں کھولتی، تبرک فورن منہ میں نہیں لیتی۔ پہلے اس چائے کی پیالی کو غور سے دیکھتی ہوں، پرکھتی ہوں، مٹھائی کو ہاتھ میں ملتی ہوں۔ اس وزن کو سلام کرتی ہوں: کبھی کبھار، جو ملتا ہے، وہ مانگے ہوئے سے کئی زیادہ ہوتا ہے۔




